خوشی ملی تو بہت ہی اداس بیٹھے رہے
خوشی ملی تو بہت ہی اداس بیٹھے رہے چلا گیا وہ تو ہم اس کے پاس بیٹھے رہے جمال یار کی لذت بیان کیا کرتے نظر میں شوق بدن میں ہراس بیٹھے رہے برہنگی ہی کچھ ایسی تھی شہر غربت کی قبا پہن کے بھی ہم بے لباس بیٹھے رہے یہ واقعہ مری آنکھوں کے سامنے کا ہے شراب ناچ رہی تھی گلاس بیٹھے رہے اسی ...