Saeed Qais

سعید قیس

سعید قیس کی غزل

    خوشی ملی تو بہت ہی اداس بیٹھے رہے

    خوشی ملی تو بہت ہی اداس بیٹھے رہے چلا گیا وہ تو ہم اس کے پاس بیٹھے رہے جمال یار کی لذت بیان کیا کرتے نظر میں شوق بدن میں ہراس بیٹھے رہے برہنگی ہی کچھ ایسی تھی شہر غربت کی قبا پہن کے بھی ہم بے لباس بیٹھے رہے یہ واقعہ مری آنکھوں کے سامنے کا ہے شراب ناچ رہی تھی گلاس بیٹھے رہے اسی ...

    مزید پڑھیے

    جان قربان کون کرتا ہے

    جان قربان کون کرتا ہے اپنا نقصان کون کرتا ہے سب تری زلف کے حصار میں ہیں پر یہ اعلان کون کرتا ہے تیری قربت کسے عزیز نہیں دل کو ویران کون کرتا ہے لوگ تو مشکلوں میں ڈالتے ہیں مشکل آسان کون کرتا ہے تم تغافل اگر نہیں کرتے تو مری جان کون کرتا ہے بت پرستی تو ہم بھی کرتے ہیں ترک ایمان ...

    مزید پڑھیے

    ہجر تنہائی کے لمحوں میں بہت بولتا ہے

    ہجر تنہائی کے لمحوں میں بہت بولتا ہے رنگ اس کا کئی رنگوں میں بہت بولتا ہے میں اسے چپ کے حوالے سے بھی کیسے لکھوں وہ تو ایسا ہے کہ حرفوں میں بہت بولتا ہے ایک لو ہے کہ سر بام تھرکتی ہے بہت اک دیا ہے کہ دریچوں میں بہت بولتا ہے اپنی آواز سنائی نہیں دیتی مجھ کو ایک سناٹا کہ گلیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    شور کیسا ہے مبتلا مجھ میں

    شور کیسا ہے مبتلا مجھ میں کون رہتا ہے دوسرا مجھ میں میں کسی جبر کے حصار میں ہوں اک سفر ہے رکا ہوا مجھ میں جانے کیا تھا کہ رات اس کا خیال راستہ ڈھونڈھتا رہا مجھ میں ٹمٹماتے رہے گلی کے چراغ رقص کرتی رہی ہوا مجھ میں کب سے اپنی تلاش ہے مجھ کو تو نے کیا کیا چھپا دیا مجھ میں کتنا ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں

    نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں یہ سارے پھول اگائے ہوئے اسی کے ہیں اسی کے لطف سے بستی نہال ہے ساری تمام پیڑ لگائے ہوئے اسی کے ہیں اسی کے حسن کی پرچھائیاں ہیں پتوں پر زمیں نے بوجھ اٹھائے ہوئے اسی کے ہیں وہ جس کے قرب سے حرف وصال ہے روشن مرے چراغ جلائے ہوئے اسی کے ہیں یہ بارشیں ...

    مزید پڑھیے

    چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے

    چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے حادثہ جو بھی ہو چپ چاپ گزر جاتا ہے دل سے اچھا کوئی رستہ نہیں دیکھا میں نے پھر دریچے سے وہ خوشبو نہیں پہنچی مجھ تک پھر وہ موسم کبھی دل کا نہیں دیکھا میں نے موم کا چاند ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہوں شہر میں ...

    مزید پڑھیے

    عذر ہوا نے کیا رکھا ہے

    عذر ہوا نے کیا رکھا ہے کیسا شور مچا رکھا ہے اک بے نام تعلق میں بھی خوف بچھڑنے کا رکھا ہے دیکھو ہم نے اس لمحے کا کتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے اس کی آنکھیں دیکھ رہا ہوں جس نے جال بچھا رکھا ہے دھوپ میں اس نے کس کی خاطر چھت پر چاند اگا رکھا ہے تم پاگل ہو تم کیا جانو کس کے دل میں کیا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    دل بہک جاتا ہے برسات کے ساتھ

    دل بہک جاتا ہے برسات کے ساتھ ہم بگڑ جاتے ہیں حالات کے ساتھ وہ مقدس ہے صحیفے کی طرح حفظ ہو جاتا ہے آیات کے ساتھ کتنے روشن ہیں در و بام خیال ہم چمکنے لگے ذرات کے ساتھ دشت جاں اور ترے درد کی لو کون گزرا ہے مری رات کے ساتھ یہ غنیمت ہے کہ ہم زندہ ہیں لوگ مر جاتے ہیں عادات کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2