آرزوئے وصال یار کریں

آرزوئے وصال یار کریں
کس کے آنے کا انتظار کریں


درد کے کس مقام سے گزریں
اپنا دریا کہاں سے پار کریں


کس سے کس موڑ پر بچھڑ جائیں
کون سا ہجر اختیار کریں


یہ جو اک زخم جاں پس جاں ہے
کس کے سینے کے آر پار کریں


فرصت شوق عمر آوارہ
آ تجھے آج شرمسار کریں


دل کی اونچی مچان پر بیٹھیں
اور کوئی آرزو شکار کریں


مسئلہ یہ ہے کس حوالے سے
کوئی خواہش سپرد یار کریں


کاش تم روز ہی مکر جاؤ
کاش ہم روز انتظار کریں


چاند چھت پر ضرور آئے گا
میری آنکھوں کا اعتبار کریں


ایک مشکل سی آ پڑی ہے قیسؔ
تیری آنکھوں پہ کیا نثار کریں