غالبؔ
تم یہ کہتے ہو کہ قائل نہیں اسلاف کا میں
سچ ہے یہ دور بھی اسلاف پرستی کا نہیں
آج ہر جام سے لبریز مع ہستی سے
جام دیروز میں یہ بادۂ رنگیں ہے کہیں
تم نے سمجھا ہی نہیں فلسفۂ زیست ہے کیا
کب میں کہتا ہوں کہ جھٹلا دو گزشتہ لمحے
میں نے تو اور بھی چمکائے ہیں ماضی کے نقوش
گل کئے ہوں گے تمہیں نے گئے وقتوں کے دئے
میں اس افلاس زدہ دور سے بچ کر اے دوست
لکھ نہیں سکتا کسی حال میں بوسیدہ ادب
اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ میں پیش کروں
بے تپ و تاب و پراگندہ و ژولیدہ ادب
کل جو تھا طرز جہاں آج کہاں ہے باقی
ساتھ دے سکتی نہیں آج کا وہ رسم کہن
کل تو کچھ اور ہی تھی لوح و قلم کی دنیا
آج کچھ اور ہے دیوانوں کا انداز سخن
میرے افکار پہ کہتے ہو کہ ہے مہر لگی
حافظؔ و سعدیؔ بھی ہیں عہد گزشتہ کے ادیب
تم ہی بتلاؤ کہ مرتا ہے کہیں ایسا ادب
جو رہا ہو غم ہستی غم دوراں کے قریب
عشق اور حسن کے افسانوں میں کیا رکھا ہے
سن کے ان قصوں کو بیمار نہیں جی سکتے
جس میں شربت ہو فقط بادۂ تریاق نہ ہو
آج اس جام کو مے خوار نہیں پی سکتے
میرے دل میں بھی عقیدت کا دیا جلتا ہے
ہو ظہوریؔ و نظیرؔی کی ہو طالبؔ کا کلام
کیٹسؔ ٹیگورؔ کہ اقبالؔ ہوں تلسیؔ ہوں کہ میرؔ
سب سے غالبؔ کو جدا رکھتا ہے غالبؔ کا کلام
آج بھی حضرت غالبؔ کا قلم زندہ ہے
اس سے ملتا ہے ابھی جس کی ضرورت ہے ہمیں
آج کے دور میں بھی تازہ ہیں افکار اس کے
یہ الگ بات کہ اس سے بھی کدورت ہے ہمیں