وہ اک ستارہ
وہ اک ستارہ
جو آسماں کی بلندیوں سے اترا
غلام ہندوستاں کی
مہیب تاریکیوں میں چمکا
جس نے ساکت فضاؤں کو ارتعاش بخشا
شعور کو
بیداریاں عطا کیں
اور
ضمیر کو جھنجھوڑا
بے فکر ذہنوں کو
فکر کی حرارت سے جوڑا
دلوں میں شمع آزادئ وطن جلائی
کہ جس سے
دلوں کے سیاہ خانے منور ہوئے
وہ جانتا تھا
کہ
آہن آہن کو کانٹتا ہے
وہ عسکری طاقتوں سے
جابر عسکریت کے استحکام کو
پارہ پارہ کر کے
وطن کو آزاد کرنے کا
خواب بنتا رہا
وہ عزم اور حوصلے کی قندیل
اپنی صلیب جاں پر
جلا کے
روشنی اور تمازتیں بانٹتا رہا
وہ جانتا تھا
اپنے سفر کی
ابتدا اور انتہا کا حاصل
وہ ذہن کی
وسعتوں میں
اس امید کے ساتھ
عزائم کے بیج بوتا رہا
کہ
آنے والی نسل
اس فصل کو
کامیابی اور کامرانی سے کاٹ سکے