Sadiya Safdar Saadi

سعدیہ صفدر سعدی

  • 1986

سعدیہ صفدر سعدی کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    سماعت پر دباؤ وقت کا منہ زور ہوتا ہے

    سماعت پر دباؤ وقت کا منہ زور ہوتا ہے خموشی کے تعاقب میں ہمیشہ شور ہوتا ہے تمہارا نام لے کر کھینچتی ہوں آئنے پر خط جھپکتی ہوں ذرا آنکھیں تو چہرہ اور ہوتا ہے مجھے کیوں ہر زمانہ خون میں لت پت ملا ہے پھر بڑوں سے جب سنا تھا ظلم کا اک دور ہوتا ہے خدارا مفتیان شہر سے کوئی تو یہ ...

    مزید پڑھیے

    ان ہواؤں کی نہ لگ جائے نظر

    ان ہواؤں کی نہ لگ جائے نظر کونپلیں نکلی ہیں دل کی شاخ پر اب کے فصل غم نہیں لانا ادھر آنے والے موسموں سے بات کر میری اک اک سانس گروی ہے تری اب تجھے میں کیا کہوں اے بے خبر کانپ اٹھتا ہے یہ پنجرہ سوچ کر جب نکل آئیں گے میرے بال و پر چھوڑ دیتا وہ ادھورا ہی سفر دیکھ لیتا جو مجھے بس اک ...

    مزید پڑھیے

    روشنی جب مانگتے ہیں یہ دیے کی لو سے پوچھ

    روشنی جب مانگتے ہیں یہ دیے کی لو سے پوچھ کیوں اندھیرے کانپتے ہیں یہ دیے کی لو سے پوچھ عشق کرنا ہے تو پہلے عشق کے آداب سیکھ رات کیسے کاٹتے ہیں یہ دیے کی لو سے پوچھ کون سا غم ہے کہ یوں ہی چاند تارے میرے ساتھ رات کیسے جاگتے ہیں یہ دیے کی لو سے پوچھ ہم شب تنہائی میں کرتے ہیں اپنا ہی ...

    مزید پڑھیے

    یوں شب ہجر بتائی میں نے

    یوں شب ہجر بتائی میں نے نیند طاقوں میں جلائی میں نے چھوڑ جاؤں گی قسم سے تجھ کو اور قسم بھی تری کھائی میں نے اوس کی آنکھوں سے چرا کر کچھ اشک رات کی پہلی کمائی میں نے اس کا غم سرد کیا آہوں سے دھوپ میں چھاؤں ملائی میں نے جانے کیوں روح کی دیوار پہ آج زرد سی بیل چڑھائی میں نے نام ...

    مزید پڑھیے

    قلم میں روشنی کم اور دھواں زیادہ ہے

    قلم میں روشنی کم اور دھواں زیادہ ہے غزل لکھی تو طبیعت رواں زیادہ ہے مجھے تو علم نہیں تو کوئی حساب لگا کہاں پہ کم ہے محبت کہاں زیادہ ہے فقیر لڑکی ہوں میرے لیے مرے خالق جو سچ کہوں جو دیا تو نے ہاں زیادہ ہے مرے مکان کا صحرا سے کیا موازنہ ہے یہاں پہ شور زیادہ زیاں زیادہ ہے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    ہجر نگری

    تری موجودگی موجود ہے تو پھر یہاں سب کچھ مجھے پھیکا فنا جیسا سکوت مرگ جیسا لگ رہا ہے کیوں نہ دنیا ہے نہ شور و غل نہ ہنگامے نہ دل کو کھینچتے میلے جھمیلے ہیں نہ لوگوں کے تماشے ہیں نہ آنکھوں میں کوئی رونق نہ سانسوں میں حرارت ہے نہ ہاتھوں میں قلم میرے نہ ہی تکیے تلے غزلیں نہ ہی نظمیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    خواب

    حصار رنج میں رہتے ہوئے تجھے چاہوں غبار راہ یقیں میں سدا تجھے دیکھوں جبین وقت پہ ہر آن بس تجھے لکھوں چراغ ہجر بنوں رات بھر تری آنکھوں کے جنگلوں میں کروں روشنی اڑاؤں تری سنہری نیند اندھیروں بھرے مکانوں میں ترے وجود سے اپنا وجود باندھ کے میں سمندروں میں کروں رقص جل پری کی طرح سناؤں ...

    مزید پڑھیے