یوں شب ہجر بتائی میں نے
یوں شب ہجر بتائی میں نے
نیند طاقوں میں جلائی میں نے
چھوڑ جاؤں گی قسم سے تجھ کو
اور قسم بھی تری کھائی میں نے
اوس کی آنکھوں سے چرا کر کچھ اشک
رات کی پہلی کمائی میں نے
اس کا غم سرد کیا آہوں سے
دھوپ میں چھاؤں ملائی میں نے
جانے کیوں روح کی دیوار پہ آج
زرد سی بیل چڑھائی میں نے
نام تکیے پر ترا لکھنا تھا
اس لیے سیکھی کڑھائی میں نے
بیچ کر سعدیہؔ زیور ماں کا
پوری کی اپنی پڑھائی میں نے