ان ہواؤں کی نہ لگ جائے نظر

ان ہواؤں کی نہ لگ جائے نظر
کونپلیں نکلی ہیں دل کی شاخ پر


اب کے فصل غم نہیں لانا ادھر
آنے والے موسموں سے بات کر


میری اک اک سانس گروی ہے تری
اب تجھے میں کیا کہوں اے بے خبر


کانپ اٹھتا ہے یہ پنجرہ سوچ کر
جب نکل آئیں گے میرے بال و پر


چھوڑ دیتا وہ ادھورا ہی سفر
دیکھ لیتا جو مجھے بس اک نظر