ہجر نگری
تری موجودگی موجود ہے تو پھر
یہاں سب کچھ
مجھے پھیکا فنا جیسا
سکوت مرگ جیسا لگ رہا ہے کیوں
نہ دنیا ہے نہ شور و غل
نہ ہنگامے
نہ دل کو کھینچتے میلے جھمیلے ہیں
نہ لوگوں کے تماشے ہیں نہ آنکھوں میں کوئی رونق
نہ سانسوں میں حرارت ہے
نہ ہاتھوں میں قلم میرے
نہ ہی تکیے تلے غزلیں نہ ہی نظمیں
نہ زلفوں کو سنورنا آ رہا ہے اور نہ اب آئی برو
میں ہیں دھنک قوسیں نہ مسکارے سے پلکوں کو شب کی سیاہی دی
نہ سرمے سے بنائی طور سی آنکھیں
نہ اب ساڑی پہنتی ہوں
نہ اب پٹیالہ شلواریں نہ کرتے اور نہ چوڑی دار پاجامے
نہ ناخن نیل پاش سے بناتی ہوں ستارے میں
نہ عاطفؔ کا کوئی گانا سنا ہے اور نہ راحتؔ کی قوالی ہی
عجب بیزار سے دن رات ہیں میرے
نہ بادل ہیں نہ بارش ہے
نہ جگنو ہیں پرندے ہیں
یوں ہی بے وقت روتی ہوں
دما دم بس
اڑھائی تین تک میں رات کے سوتی ہوں آخر یہ
ہوا کیا ہے مجھے سعدیؔ
یہ کیا ویرانگی ہے سامنے میرے
مرا کمرہ ہے یا صحرا
مری آنکھیں ہیں یا دریا
ہوا کیا ہے کھلے کچھ تو
بڑی معصوم لڑکی ہوں
مجھے کب یاد ہے میں ہوں مقید کچھ دنوں سے
ہجر نگری میں