قلم میں روشنی کم اور دھواں زیادہ ہے

قلم میں روشنی کم اور دھواں زیادہ ہے
غزل لکھی تو طبیعت رواں زیادہ ہے


مجھے تو علم نہیں تو کوئی حساب لگا
کہاں پہ کم ہے محبت کہاں زیادہ ہے


فقیر لڑکی ہوں میرے لیے مرے خالق
جو سچ کہوں جو دیا تو نے ہاں زیادہ ہے


مرے مکان کا صحرا سے کیا موازنہ ہے
یہاں پہ شور زیادہ زیاں زیادہ ہے


ہمارے حصے ہے جو بھی ہمیں نہیں معلوم
زمیں زیادہ ہے یا آسماں زیادہ ہے


اب اس کی واپسی ممکن نہیں کسی بھی طرح
یقین سے کہیں وہ بد گماں زیادہ ہے


ہمارے شہر میں پھولوں کا ذکر کون کرے
ہمارے شہر میں سعدیؔ خزاں زیادہ ہے