اڑان
من کا یہ آنچل چاہتا تو ہے کھلے آسمان میں اڑنا حوصلہ ہے دشائیں ہیں اور پنکھ بھی ہیں اڑنے کے لیے مگر اسے اڑنے سے انکار ہے کہ اب بھی اس کا کوئی سرا زمین سے جڑا ہے شاید
من کا یہ آنچل چاہتا تو ہے کھلے آسمان میں اڑنا حوصلہ ہے دشائیں ہیں اور پنکھ بھی ہیں اڑنے کے لیے مگر اسے اڑنے سے انکار ہے کہ اب بھی اس کا کوئی سرا زمین سے جڑا ہے شاید
خاموش تھا ساحل لہریں بھی تھم چکی تھیں پانی میں جھانکتے ہوئے تاروں کی ایک لڑی تھی چپکے سے بہہ رہی ہوا میں سانسوں کی آواز تھی کھویا تو کچھ نہیں تھا پھر بھی جانے کیا تلاش تھی تنہائی میں اکثر جو یاد آئی ہے یہ وہ بات ہے ہم کو تو یاد آج بھی پہلی وہ ملاقات ہے ایک شخص جو تھا اجنبی دو قدم ...
کل رات زوروں کی برسات تھی آنکھوں کے آسمان پر بھی یادوں کے بادل چھائے تھے برسات کی بوندیں اور آنکھوں کے بادل ساتھ ساتھ رات بھر برستے رہے مانو ہر برستی بوند خاموشیوں کو توڑتا ہوا ایک لفظ بن گئی تھی دونوں کے بیچ گفتگو رات بھر ہوئی تھی صبح دیکھا آسمان صاف تھا وہ کھل کر مسکرا رہا ...
کوئی بھی تو دن نہیں ایسا جب باتیں نہ کی ہوں تم سے کوئی بھی تو پل نہیں ایسا جب سوچا نہ ہو تمہیں کوئی ایک بھی تو دعا نہیں ایسی جس میں تم شامل نہیں اور کچھ بھی تو رہا نہیں ایسا جسے دل نے کہا اور دل نے سنا نہیں مانا کہ تم ساتھ ہو ہر دم اس دل کے بہت پاس ہو ہمدم مگر یوں ہی کبھی سوچتا ہے یہ ...
ہر رات جا کر چھت پہ اک ایسا ستارا ڈھونڈھنا ممکن ہو جس کا ٹوٹنا اپنی نظر کے سامنے کچھ دیر تک کر آسماں کو تھک چکیں پلکیں گری جب کھلی پلکیں تو دیکھا آسماں قدموں پے تھا وہ کھڑے تھے سامنے جن کی تھی دل کو آرزو دیکھا اسی پل گر رہا ہے ایک ستارا ٹوٹ کر اب یہ تھی الجھن کہ ہم دیکھیں انہیں یا ...
خوابوں کی اونچی اڑان اپنے پروں پر بٹھا کر مجھے دور افق تک اڑا لے جاتی ہے یہی تو ہیں وہ پل جب تمہیں پا کر میں خود کہیں کھو جاتی ہوں کچھ دیر جی لینے کے بعد کچھ سوچ کر خوابوں کے ان مخملی پروں سے پھسل کر میں پھر سے حقیقت کی پتھریلی زمیں پر اتر آتی ہوں من تو اب بھی رہتا ہے تمہارے ہی ...
یہ چھن چھن کی آواز جو تم سن رہے ہو میری پائل کی نہیں ہے یہ آواز ہے ان معصوم سپنوں کی جو حقیقت کے فرش پر ہر پل گھنگھرؤں کی مانند ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں یہ کھنکھناہٹ کی آواز جو میری چوڑیوں سی جان پڑتی ہے یہ آواز ہے ان سخت بیڑیوں کی جو میرے ہاتھوں کو تمہارے ہاتھوں کی اور بڑھنے سے روک رہی ...