ایک اور برسات
کل رات زوروں کی برسات تھی
آنکھوں کے آسمان پر بھی
یادوں کے بادل چھائے تھے
برسات کی بوندیں
اور آنکھوں کے بادل
ساتھ ساتھ رات بھر برستے رہے
مانو ہر برستی بوند
خاموشیوں کو توڑتا ہوا
ایک لفظ بن گئی تھی
دونوں کے بیچ گفتگو
رات بھر ہوئی تھی
صبح دیکھا
آسمان صاف تھا
وہ کھل کر مسکرا رہا تھا
مانو اس کے سارے گلے شکوے
بہہ گئے تھے
مگر
آنکھوں کے بادل
اب بھی جیوں کے تیوں تھے
وہ برسے تو تھے مگر
ہر بوند جیسے
دل کے ساگر میں اتر گئی تھی
اور ایک بار پھر
دل سے آنکھوں تک کا سفر طے کرنے کے لیے
اسے انتظار تھا
تو صرف
ایک اور برسات کا