کشمکش

ہر رات جا کر چھت پہ
اک ایسا ستارا ڈھونڈھنا
ممکن ہو جس کا ٹوٹنا
اپنی نظر کے سامنے


کچھ دیر تک کر آسماں کو
تھک چکیں پلکیں گری
جب کھلی پلکیں تو دیکھا
آسماں قدموں پے تھا
وہ کھڑے تھے سامنے
جن کی تھی دل کو آرزو
دیکھا اسی پل گر رہا ہے
ایک ستارا ٹوٹ کر


اب یہ تھی الجھن کہ ہم
دیکھیں انہیں یا مانگ لیں
تھے اسی الجھن میں ہم
اور سنی آہٹ تبھی
چونک کر پلکیں کھلیں تو
دیکھ کر حیران تھے
رات خوابوں میں گزاری
کشمکش بھی فضول تھی


ہر رات کا ہے سلسلہ یہ
اور نئی امید ہے
مل جائیں گے ہم تم کہیں
اور ٹوٹے گا تب ایک ستارا
اس حسیں پل کا رہے گا
تا عمر ہم کو انتظار