Rubina Mumtaz Rubi

روبینہ ممتاز روبی

روبینہ ممتاز روبی کی غزل

    یوں ہی کاٹی ہے زندگی تنہا

    یوں ہی کاٹی ہے زندگی تنہا غم ہو چاہے کہ ہو خوشی تنہا حق کہے گی زبان یہ میری چاہے کر دے یہ گام ہی تنہا اک دیا ہی بہت ہے جو کر دے گھپ اندھیرے میں روشنی تنہا اس کا لہجہ مجھے ڈراتا ہے اس کو کر دے نہ بے حسی تنہا راز دل کے دبے ہی رہنے دو کر نہ دے تم کو آگہی تنہا محفلیں روز ہی ہیں سجتی ...

    مزید پڑھیے

    غم کے دامن میں خوشی اچھی لگی

    غم کے دامن میں خوشی اچھی لگی تھا اندھیرا روشنی اچھی لگی موت کو دیکھا جو اپنے سامنے آج مجھ کو زندگی اچھی لگی دوستوں سے اس قدر کھائے فریب دشمنوں کی دشمنی اچھی لگی بن گیا میرا تماشہ گر تو کیا ان کے ہونٹوں پر ہنسی اچھی لگی کہہ دیا شعروں میں روبیؔ حال دل وہ یہ بولے شاعری اچھی لگی

    مزید پڑھیے

    ہے آرزو یہ کوئی تو ایسا دکھائی دے

    ہے آرزو یہ کوئی تو ایسا دکھائی دے جو بے حسی کے دور میں اپنا دکھائی دے احوال زندگی میں ہے ہر شخص اجنبی چہرہ کوئی تو مجھ کو شناسا دکھائی دے ہے کشمکش میں آج بڑی زندگی مری ہوں منتظر کہ کوئی تو رستہ دکھائی دے چاروں طرف ہے راج اداسی کا آج کل کوئی تو ہو جو شہر میں ہنستا دکھائی دے ہے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا سفر کٹھن ہے بہت

    زندگی کا سفر کٹھن ہے بہت چل رہی ہوں مگر تھکن ہے بہت یوں تو کہنے کو ہے شریک سفر پھر بھی لیکن اکیلا پن ہے بہت گو خلوص و وفا کا ہے پیکر اس کے لہجے میں پر چبھن ہے بہت یاد اوڑھی ہوئی ہے اس کی یوں لاش کو جیسے اک کفن ہے بہت زندگی ہے عجیب الجھن میں جی رہی ہوں مگر گھٹن ہے بہت میں مکمل ...

    مزید پڑھیے

    دھوکے پہ دھوکہ اس طرح کھاتے چلے گئے

    دھوکے پہ دھوکہ اس طرح کھاتے چلے گئے ہم دشمنوں کو دوست بناتے چلے گئے ہر زخم زندگی کو گلے سے لگا لیا ہم زندگی سے یوں ہی نبھاتے چلے گئے وہ نفرتوں کا بوجھ لیے گھومتے رہے ہم چاہتوں کو ان پہ لٹاتے چلے گئے جو خواب زندگی کی حقیقت نہ بن سکا اس کے حسیں فریب میں آتے چلے گئے روبیؔ چھپانا ...

    مزید پڑھیے

    زخم کھاتی ہوں مسکراتی ہوں

    زخم کھاتی ہوں مسکراتی ہوں یوں غم زندگی نبھاتی ہوں روز کرتا ہے وہ جفا مجھ پر اور میں روز بھول جاتی ہوں ہوں بکھرتی میں روز ہی لیکن روز خود کو سمیٹ لاتی ہوں اس کی مرضی نہیں گلہ اس سے حوصلہ ہے جو میں نبھاتی ہوں اب تو عادت سی ہو گئی روبیؔ آپ اپنی ہنسی اڑاتی ہوں

    مزید پڑھیے

    دسترس میں اگر نہ آؤں تو پھر

    دسترس میں اگر نہ آؤں تو پھر خاک بن کر میں اڑ ہی جاؤں تو پھر تم کو فرصت نہیں ہے میرے لیے میں بھی رستوں میں کھو ہی جاؤں تو پھر میرے غم پر جو ہنس رہے ہو تم میں بھی یوں ہی تمہیں ستاؤں تو پھر عشق کے چرچے میں ہے رسوائی یہ کہانی زباں پہ لاؤں تو پھر آبلہ پا ہے روبیؔ تیری طرح تھک گئے گر یہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں مجھے بے نشان کر دیجے

    یوں مجھے بے نشان کر دیجے قبر میرا مکان کر دیجے لذت درد کم نہ ہو جائے زخم پھر سے جوان کر دیجے دھوپ خوشیوں کی بڑھ گئی ہے بہت غم کا پھر سائبان کر دیجے چشم نم کھول دے نہ راز مرا مجھ کو پھر بے زبان کر دیجے تخم خواہش نہ جس میں اگ پائے بانجھ وہ گلستان کر دیجے

    مزید پڑھیے