یوں ہی کاٹی ہے زندگی تنہا
یوں ہی کاٹی ہے زندگی تنہا
غم ہو چاہے کہ ہو خوشی تنہا
حق کہے گی زبان یہ میری
چاہے کر دے یہ گام ہی تنہا
اک دیا ہی بہت ہے جو کر دے
گھپ اندھیرے میں روشنی تنہا
اس کا لہجہ مجھے ڈراتا ہے
اس کو کر دے نہ بے حسی تنہا
راز دل کے دبے ہی رہنے دو
کر نہ دے تم کو آگہی تنہا
محفلیں روز ہی ہیں سجتی مگر
پھر بھی لگتا ہے ہر کوئی تنہا
ساتھ تھا یوں تو عمر بھر کوئی
روبیؔ پھر بھی مگر رہی تنہا