یوں مجھے بے نشان کر دیجے

یوں مجھے بے نشان کر دیجے
قبر میرا مکان کر دیجے


لذت درد کم نہ ہو جائے
زخم پھر سے جوان کر دیجے


دھوپ خوشیوں کی بڑھ گئی ہے بہت
غم کا پھر سائبان کر دیجے


چشم نم کھول دے نہ راز مرا
مجھ کو پھر بے زبان کر دیجے


تخم خواہش نہ جس میں اگ پائے
بانجھ وہ گلستان کر دیجے