ریاض ساغر کی غزل

    مری زمین نہیں ہے ترے زمن کے بغیر

    مری زمین نہیں ہے ترے زمن کے بغیر کہ پھول کھل نہیں سکتا کہیں چمن کے بغیر بچھڑ گئی مری خوشبو اجڑ گئے رمنے کہاں سے لاؤں میں نافہ ترے ختن کے بغیر پہن تو لی ہے انگوٹھی مگر یہ جانتا ہوں مرا عقیق ہے لا شے کسی یمن کے بغیر مرے سرن سے تری دوڑ کاش آ کے ملے کہ شام شام اداسی ہے تجھ سجن کے ...

    مزید پڑھیے

    تیری جمالیات سے آگے نکل گئے

    تیری جمالیات سے آگے نکل گئے ہم حس و حسیات سے آگے نکل گئے اپنے کسی جزیرے پہ عیدیں منائیں گے ہم تیری چاند رات سے آگے نکل گئے لکھی ہوئی ہیں چہروں پہ ساری کثافتیں اب چہرے واقعات سے آگے نکل گئے اب ہر جگہ پہ گاتے ہیں اور ناچتے ہیں لوگ اب یہ توے پرات سے آگے نکل گئے منہ زور پانیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    تو مجھ کو مرے نام سے پہچان کہ میں ہوں

    تو مجھ کو مرے نام سے پہچان کہ میں ہوں چھوٹا ہی سہی مجھ کو مگر مان کہ میں ہوں اک عمر اسی شہر میں گزری ہے ترے ساتھ اب کس لیے بنتا ہے تو انجان کہ میں ہوں یہ جیب بھی میری ہے یہ بازار بھی میرا کر دیتا ہوں میں اپنا ہی نقصان کہ میں ہوں ہو جائے گا اک روز یہ اعلان کہ میں تھا اب کرتا ہوں خود ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے گلاس کو اب طاقچے میں رکھ

    ٹوٹے ہوئے گلاس کو اب طاقچے میں رکھ پھر اپنی پیاس جلتے ہوئے راستے میں رکھ جو عکس بن کے بیٹھا ہوا ہے اسے نکال کم فہم اپنے آپ کو اب آئنے میں رکھ یہ رات بن گئی ہے پچھل پائیوں کی رات سورج اتار اور اسے اک دیے میں رکھ اک شبھ گھڑی کہ جس میں ہو قوسین کا ملن اے زائچہ نویس مرے زائچے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ذات کے کنکر ہیں پہ ہیرے کی طرح ہیں

    ہم ذات کے کنکر ہیں پہ ہیرے کی طرح ہیں ہم بجھ کے بھی منظر میں سویرے کی طرح ہیں پہنچائیں گے گھر تم کو بھٹکنے نہیں دیں گے جنگل سے گزرتے ہوئے رستے کی طرح ہیں کچھ ٹوٹی ہوئی پنسلیں پھوٹے ہوئے کاغذ ہم ہیں تو مگر بچے کے بستے کی طرح ہیں اشجار کا دیوار کا گلیوں کا ہمیں دکھ اس شہر میں ہم ...

    مزید پڑھیے

    مٹی کا چاند گرد کے ہالے میں آ گیا

    مٹی کا چاند گرد کے ہالے میں آ گیا مختار کل تھا جبر کے تالے میں آ گیا بس اس کے چشم و لب کا احاطہ نہ ہو سکا ویسے بدن کا ذکر مقالے میں آ گیا مجھ سے نگاہیں پھیر لیں میرے ہی چاند نے اچھا ہوا کہ اب میں اجالے میں آ گیا اک لعل لب کا لمس بکھرنے کی دیر تھی نشہ سمٹ کے آنکھ کے پیالے میں آ ...

    مزید پڑھیے

    دل و دماغ میں اک دھاندلی مچی ہوئی ہے

    دل و دماغ میں اک دھاندلی مچی ہوئی ہے کہیں سے تیز ہوا عشق کی چلی ہوئی ہے یہ میرا کمرہ تری یاد سے سجا ہوا ہے اور اس کی میز پہ چوڑی تری پڑی ہوئی ہے گلی کے موڑ سے آگے جو پانچواں گھر ہے اداسی اس کے در و بام پر لکھی ہوئی ہے وہ وارڈ روب مہکتا تھا جب تو آتا تھا اب اس کے کپڑوں میں خوشبو تری ...

    مزید پڑھیے

    ایسے ہی کئی شور مچاتے ہوئے دریا

    ایسے ہی کئی شور مچاتے ہوئے دریا آنکھوں سے بہے جوش میں آتے ہوئے دریا اک خاک کی ناؤ کا سفر جاری ہے پھر بھی منہ زور ہیں گو جھاگ اڑاتے ہوئے دریا کیا میرے در و بام کا افسوس تھا اس کو کیوں دیکھ رہا تھا مجھے جاتے ہوئے دریا پھولوں سے بھری شاخ کو کل چھیڑ رہا تھا اپنے ہی پسینے میں نہاتے ...

    مزید پڑھیے

    شجر پرند خس و خار کو بچانا پڑا

    شجر پرند خس و خار کو بچانا پڑا چمن میں آگ لگی تھی اسے بجھانا پڑا بہت دیے تھے جو میں نے جلا کے رکھے تھے ہر اک دیے میں مگر خود ہی جھلملانا پڑا بچھڑ گیا تھا کسی روز اپنے آپ سے میں پھر اپنے آپ کو اس کی گلی سے لانا پڑا وہ خود ہی میری کہانی میں ہو گیا شامل اور اس کے نام کا کردار بھی ...

    مزید پڑھیے

    دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا

    دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا میں کہ آئینہ تھا لیکن پتھروں میں آ گیا آج اس کے بال بھی گرد سفر سے اٹ گئے آج وہ گھر سے نکل کر راستوں میں آ گیا پڑھ رہا ہوں اس کتاب جسم کی اک اک ورق نور سب آنکھوں کا کھنچ کر انگلیوں میں آ گیا لوگ کہتے ہیں کہ اپنا شہر ہے لیکن مجھے یوں ...

    مزید پڑھیے