تو مجھ کو مرے نام سے پہچان کہ میں ہوں
تو مجھ کو مرے نام سے پہچان کہ میں ہوں
چھوٹا ہی سہی مجھ کو مگر مان کہ میں ہوں
اک عمر اسی شہر میں گزری ہے ترے ساتھ
اب کس لیے بنتا ہے تو انجان کہ میں ہوں
یہ جیب بھی میری ہے یہ بازار بھی میرا
کر دیتا ہوں میں اپنا ہی نقصان کہ میں ہوں
ہو جائے گا اک روز یہ اعلان کہ میں تھا
اب کرتا ہوں خود اپنا ہی اعلان کہ میں ہوں
اک سبزۂ نورستہ ہوں برگد تو نہیں میں
تو کس لیے ہے اتنا پریشان کہ میں ہوں
اس ہجر سرائے میں ہوں دو چار ہی دن اب
تھوڑا سا ہی لا دے مجھے سامان کہ میں ہوں