ہم ذات کے کنکر ہیں پہ ہیرے کی طرح ہیں

ہم ذات کے کنکر ہیں پہ ہیرے کی طرح ہیں
ہم بجھ کے بھی منظر میں سویرے کی طرح ہیں


پہنچائیں گے گھر تم کو بھٹکنے نہیں دیں گے
جنگل سے گزرتے ہوئے رستے کی طرح ہیں


کچھ ٹوٹی ہوئی پنسلیں پھوٹے ہوئے کاغذ
ہم ہیں تو مگر بچے کے بستے کی طرح ہیں


اشجار کا دیوار کا گلیوں کا ہمیں دکھ
اس شہر میں ہم درد خزانے کی طرح ہیں


تم جب بھی بلاؤ گے چلے آئیں گے یارو
ہم دور گرانی میں بھی سستے کی طرح ہیں


جو آتا ہے زنجیر بہ پا آتا ہے ساغرؔ
زینے کسی منزل کے کٹہرے کی طرح ہیں