شجر پرند خس و خار کو بچانا پڑا
شجر پرند خس و خار کو بچانا پڑا
چمن میں آگ لگی تھی اسے بجھانا پڑا
بہت دیے تھے جو میں نے جلا کے رکھے تھے
ہر اک دیے میں مگر خود ہی جھلملانا پڑا
بچھڑ گیا تھا کسی روز اپنے آپ سے میں
پھر اپنے آپ کو اس کی گلی سے لانا پڑا
وہ خود ہی میری کہانی میں ہو گیا شامل
اور اس کے نام کا کردار بھی نبھانا پڑا
وہ ہارتا ہوا دیکھا نہیں گیا مجھ سے
شکست مان لی اور اس سے ہار جانا پڑا
کسی کا دل نہ دکھائیں گے ہم نے سوچا تھا
پھر ایک دن ہمیں اپنا ہی دل دکھانا پڑا