ٹوٹے ہوئے گلاس کو اب طاقچے میں رکھ

ٹوٹے ہوئے گلاس کو اب طاقچے میں رکھ
پھر اپنی پیاس جلتے ہوئے راستے میں رکھ
جو عکس بن کے بیٹھا ہوا ہے اسے نکال
کم فہم اپنے آپ کو اب آئنے میں رکھ


یہ رات بن گئی ہے پچھل پائیوں کی رات
سورج اتار اور اسے اک دیے میں رکھ


اک شبھ گھڑی کہ جس میں ہو قوسین کا ملن
اے زائچہ نویس مرے زائچے میں رکھ


قوسیں ترا طواف کریں گے سمجھ یہ بات
مرکز میں رہ وجود کو بھی دائرے میں رکھ


میں شیخ طائفہ ہوں نئے عہد کا ریاضؔ
لا اپنی شاعری کو مرے زاویے میں رکھ