تیری جمالیات سے آگے نکل گئے
تیری جمالیات سے آگے نکل گئے
ہم حس و حسیات سے آگے نکل گئے
اپنے کسی جزیرے پہ عیدیں منائیں گے
ہم تیری چاند رات سے آگے نکل گئے
لکھی ہوئی ہیں چہروں پہ ساری کثافتیں
اب چہرے واقعات سے آگے نکل گئے
اب ہر جگہ پہ گاتے ہیں اور ناچتے ہیں لوگ
اب یہ توے پرات سے آگے نکل گئے
منہ زور پانیوں کی غذا بن گئے وہ لوگ
جو کشتیٔ نجات سے آگے نکل گئے
جو دل کہے گا اب وہ کریں گے سنو سنو
ہم وضع احتیاط سے آگے نکل گئے
جو تجھ کو کائنات سمجھتے تھے آج تک
وہ تیری کائنات سے آگے نکل گئے