ایسے ہی کئی شور مچاتے ہوئے دریا

ایسے ہی کئی شور مچاتے ہوئے دریا
آنکھوں سے بہے جوش میں آتے ہوئے دریا


اک خاک کی ناؤ کا سفر جاری ہے پھر بھی
منہ زور ہیں گو جھاگ اڑاتے ہوئے دریا


کیا میرے در و بام کا افسوس تھا اس کو
کیوں دیکھ رہا تھا مجھے جاتے ہوئے دریا


پھولوں سے بھری شاخ کو کل چھیڑ رہا تھا
اپنے ہی پسینے میں نہاتے ہوئے دریا


آئے تھے مسافت کو چھپائے ہوئے لیکن
پھر نوحہ بلب ہو گئے گاتے ہوئے دریا