ریحانہ قمر کی غزل

    گھر سے باہر تھی نہ گھر بیٹھی رہی

    گھر سے باہر تھی نہ گھر بیٹھی رہی سوچ کی دہلیز پر بیٹھی رہی یہ محبت تھی کہ برقی تار پر کوئی چڑیا رات بھر بیٹھی رہی میرا سورج ہی نہیں آیا ادھر میں ستارے اوڑھ کر بیٹھی رہی جانے کس کی آس میں اک فاختہ صحن کی دیوار پر بیٹھی رہی اٹھ گئے اک ایک کر کے سارے لوگ اجڑی محفل میں قمرؔ بیٹھی ...

    مزید پڑھیے

    میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں

    میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں یہ میری ضد ہے کہ آگے ہوا کے رکھتی ہوں میں ٹوٹ سکتی ہوں لیکن میں جھک نہیں سکتی شکست ذات میں پہلو انا کے رکھتی ہوں وہ بادباں ہے اگر کشتیٔ محبت کا میں بادبان سے رشتے ہوا کے رکھتی ہوں نہیں ہے گھر میں تری یاد کے علاوہ کچھ تو کس کے سامنے چائے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس دل سے نکل کر بام و در تقسیم کرتی ہوں

    میں اس دل سے نکل کر بام و در تقسیم کرتی ہوں کہ خود بے گھر ہوں اور لوگوں میں گھر تقسیم کرتی ہوں نگر والوں میں جب کوتاہ دستی عام ہوتی ہے میں آندھی کی طرح ان میں ثمر تقسیم کرتی ہوں ہواؤں کے لیے کچھ بھی بچا کر میں نہیں رکھتی خزاں رت کی طرح پورا شجر تقسیم کرتی ہوں مرے پاس اس کو دینے ...

    مزید پڑھیے

    سر بزم طلب رقص شرر ہونے سے ڈرتی ہوں

    سر بزم طلب رقص شرر ہونے سے ڈرتی ہوں کہ میں خود پر محبت کی نظر ہونے سے ڈرتی ہوں بچانا چاہتی ہوں اس کو سورج کی تمازت سے مگر میں اس کے رستے کا شجر ہونے سے ڈرتی ہوں کبھی اس کے خیالوں میں نہیں جاتی تھی دریا پر اور اب یہ وقت آیا ہے کہ گھر ہونے سے ڈرتی ہوں اگر یہ سچ ہے خوشبو اور محبت چھپ ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں

    میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں دھوئیں کا پھول ہوں آتش فشاں میں رہتی ہوں کرم ہے اس کا جو دیتا ہے شکر کے موقعے کرم ہے اس کا جو میں امتحاں میں رہتی ہوں یہ وصل بھی ہے کسی اور جستجو جیسا کسی کے پاس کسی کے گماں میں رہتی ہوں مری بہار ابھی لوٹ کر نہیں آئی میں خشک پیڑ ہوں اور ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں

    آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں الجھے ہوئے پلو سے گرہ کھول رہی ہوں وہ آئے خریدے مجھے پنجرے میں بٹھا دے میں باغ میں مینا کی طرح بول رہی ہوں ہر بار ہوا ہے مرے نقصان کا سودا کہنے کو ہمیشہ سے میں انمول رہی ہوں

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص جو آنسو بہانے والا ہے

    وہ ایک شخص جو آنسو بہانے والا ہے تمام شہر کی خوشیاں چرانے والا ہے ابھی میں دیکھ کے آئی ہوں اس کی آنکھ کو تمہارے شہر میں سیلاب آنے والا ہے تمہاری آنکھوں پہ جاؤں کہ ہنستے ہونٹوں پر تمہارا ڈھنگ سمجھ میں نہ آنے والا ہے کہاں ہیں دودھ کی نہریں نکالنے والے یہاں تو جو بھی ہے باتیں ...

    مزید پڑھیے

    پھل پھینک کے ہمسائے کے گھر تنگ کرے گا

    پھل پھینک کے ہمسائے کے گھر تنگ کرے گا اک روز یہ آنگن کا شجر تنگ کرے گا لگتا تھا بچھڑ کے میں بہا لوں گی دو آنسو معلوم نہ تھا دیدۂ تر تنگ کرے گا ہنس کر تجھے ملتی ہوں تو یہ بات بھی سن لے میں رو بھی پڑوں گی تو اگر تنگ کرے گا خوش فہمیاں تا عمر نہیں ساتھ نبھاتیں اک روز تجھے حسن نظر تنگ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ کیفیت اپنی بتانے کیوں نہیں آیا

    مجھے وہ کیفیت اپنی بتانے کیوں نہیں آیا تجھے معلوم تو ہوگا زمانے کیوں نہیں آیا وہ سورج ہے تو پھر اس کے نہ آنے کا سبب کیا ہے مرے سائے سے ملنے کے بہانے کیوں نہیں آیا میں اس کو کھینچتی ہی رہ گئی لیکن نہ آیا وہ وہ میرا سانس تھا اور سانس جانے کیوں نہیں آیا مری خالی کلائی کہہ رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری

    بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری ہوا سناتی پھری ہے کہانیاں میری مری اداسی کا جب بھی انہیں ہوا معلوم تمہارا پوچھنے آئیں سہیلیاں میری یہ گھر کے لوگ چلے جائیں گے پہاڑوں پر ترے خیال میں گزریں گی چھٹیاں میری نہ کوئی پینگ پڑی ہے نہ پھول آئے ہیں بہت اداس ہیں کچھ دن سے ٹہنیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3