بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری
بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری
ہوا سناتی پھری ہے کہانیاں میری
مری اداسی کا جب بھی انہیں ہوا معلوم
تمہارا پوچھنے آئیں سہیلیاں میری
یہ گھر کے لوگ چلے جائیں گے پہاڑوں پر
ترے خیال میں گزریں گی چھٹیاں میری
نہ کوئی پینگ پڑی ہے نہ پھول آئے ہیں
بہت اداس ہیں کچھ دن سے ٹہنیاں میری
کسی لکیر پہ جھنجھلا کے رونے لگتا ہے
بہت ستاتی ہیں اس کو ہتھیلیاں میری
ہوا کا کیا ہے اڑائے گی پہلے خوشبو کو
اور اس کے بعد بکھیرے گی پتیاں میری
پھر اس کے بعد اچانک ہی رو پڑا وہ شخص
قمرؔ وہ بوجھ رہا تھا پہیلیاں میری