پھل پھینک کے ہمسائے کے گھر تنگ کرے گا

پھل پھینک کے ہمسائے کے گھر تنگ کرے گا
اک روز یہ آنگن کا شجر تنگ کرے گا


لگتا تھا بچھڑ کے میں بہا لوں گی دو آنسو
معلوم نہ تھا دیدۂ تر تنگ کرے گا


ہنس کر تجھے ملتی ہوں تو یہ بات بھی سن لے
میں رو بھی پڑوں گی تو اگر تنگ کرے گا


خوش فہمیاں تا عمر نہیں ساتھ نبھاتیں
اک روز تجھے حسن نظر تنگ کرے گا


اس واسطے تنہا اسے جانے نہیں دیتی
جگنو کو اندھیروں کا سفر تنگ کرے گا


کچھ روز اسے دیکھ کے یاد آئیں گی چڑیاں
کچھ روز یہ ٹوٹا ہوا پر تنگ کرے گا


سب کہنے کی باتیں ہیں یہ اخلاص و مروت
مت اس پہ یقیں کر وہ قمرؔ تنگ کرے گا