میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں
میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں
دھوئیں کا پھول ہوں آتش فشاں میں رہتی ہوں
کرم ہے اس کا جو دیتا ہے شکر کے موقعے
کرم ہے اس کا جو میں امتحاں میں رہتی ہوں
یہ وصل بھی ہے کسی اور جستجو جیسا
کسی کے پاس کسی کے گماں میں رہتی ہوں
مری بہار ابھی لوٹ کر نہیں آئی
میں خشک پیڑ ہوں اور گلستاں میں رہتی ہوں
مرے معاملے پہ ایسے چپ ہوئے ہیں لوگ
یہ لگ رہا ہے کہ میں رفتگاں میں رہتی ہوں
مرے قبیلے کو عادت ہے کار و کاری کی
میں اس کے خوف سے دارالاماں میں رہتی ہوں
قمرؔ جو بگڑا ہوا ہے مزاج دریا کا
اسے پتا ہے میں کچے مکاں میں رہتی ہوں