مجھے وہ کیفیت اپنی بتانے کیوں نہیں آیا

مجھے وہ کیفیت اپنی بتانے کیوں نہیں آیا
تجھے معلوم تو ہوگا زمانے کیوں نہیں آیا


وہ سورج ہے تو پھر اس کے نہ آنے کا سبب کیا ہے
مرے سائے سے ملنے کے بہانے کیوں نہیں آیا


میں اس کو کھینچتی ہی رہ گئی لیکن نہ آیا وہ
وہ میرا سانس تھا اور سانس جانے کیوں نہیں آیا


مری خالی کلائی کہہ رہی ہے عید کی شب کو
وہ اب تک چوڑیاں لے کر نہ جانے کیوں نہیں آیا


بہت دعویٰ تھا اس کو دل کی بازی جیت جانے کا
تو پھر اس کھیل میں مجھ کو ہرانے کیوں نہیں آیا


دریچہ کھول کے کب سے سراپا گوش بیٹھی ہوں
کوئی موسم تری باتیں سنانے کیوں نہیں آیا


وہ کہتا تھا کہ اس کی گفتگو ہے آئنے جیسی
تو پھر چہرہ مرا مجھ کو دکھانے کیوں نہیں آیا