ریحانہ قمر کی غزل

    کب کہا تھا کہ وہ تحفہ مجھے واپس کر دے

    کب کہا تھا کہ وہ تحفہ مجھے واپس کر دے تیری مرضی ہے تو اچھا مجھے واپس کر دے اب بھی گڑیوں میں لگا سکتی ہوں اپنے دل کو میری چھوٹی سی وہ دنیا مجھے واپس کر دے جتنے آنسو ہیں مرے پاس وہ لے لے سارے اور وہ ضبط کا لمحہ مجھے واپس کر دے دل کو لوٹا کے مرے دوست غمی کیا ہونا میں نے کب تجھ سے کہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3