میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں
میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں
یہ میری ضد ہے کہ آگے ہوا کے رکھتی ہوں
میں ٹوٹ سکتی ہوں لیکن میں جھک نہیں سکتی
شکست ذات میں پہلو انا کے رکھتی ہوں
وہ بادباں ہے اگر کشتیٔ محبت کا
میں بادبان سے رشتے ہوا کے رکھتی ہوں
نہیں ہے گھر میں تری یاد کے علاوہ کچھ
تو کس کے سامنے چائے بنا کے رکھتی ہوں
تمہارے خط ہیں مہکتے گلاب کے مانند
وہ اور کھلتے ہیں جتنا چھپا کے رکھتی ہوں
جو کہنا چاہتی ہوں وہ تو کہہ نہیں پاتی
زباں پہ تذکرے آب و ہوا کے رکھتی ہوں
میں جانتی ہوں کہ آنا نہیں کسی نے قمرؔ
مگر منڈیر پہ شمعیں جلا کے رکھتی ہوں