Rashid Imkan

رشید امکان

رشید امکان کی غزل

    کس قدر معصوم دکھیارے ہیں یہ

    کس قدر معصوم دکھیارے ہیں یہ روشنی کی رات کے تارے ہیں یہ ہم کو تو گنتی تلک آتی نہیں کتنا کچھ جیتا ہے اور ہارے ہیں یہ ہائے کیسی دوپہر کا سامنا پا برہنہ ہم ہیں بنجارے ہیں یہ مکر ہے سب پانیوں پہ تیرنا دور رہنا جلتے انگارے ہیں یہ کون جانے ان کی بخشش ہے کہاں پتھروں پہ روز سر مارے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سو تو جاؤں چراغ گل کر کے

    سو تو جاؤں چراغ گل کر کے زخم کھلنے لگیں گے بستر کے اپنی شدت کو معتبر کر لوں تیرے ہونٹوں پہ دستخط کرکے وہ تو جنت کی کھڑکیاں نکلیں جن سے میں جھانکتا تھا ڈر ڈر کے سیکڑوں بجلیاں گرا ڈالیں ایک جگنو نے روشنی کرکے دھوپ میں اور بھی نکھرتے ہیں پھول ہیں یہ تو سنگ مرمر کے

    مزید پڑھیے

    بجھ گئے سارے ماہتاب ترے

    بجھ گئے سارے ماہتاب ترے اب کہاں ہیں وہ آفتاب ترے پیدا ہوتے ہی پر نکل آئے دیکھ دن آئیں گے خراب ترے تجھ سے نفرت کی انتہا ہے یہ سونے دیتے نہیں ہیں خواب ترے خود کو لگنے نہ دوں کوئی کانٹا تیرے ہاتھوں سے لوں گلاب ترے تیرے چہرے پہ پوت دی کالک میری ٹھوکر پہ سب عذاب ترے اب تو خوش ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    پھول سوئے ہوئے تھے چھاتی پر

    پھول سوئے ہوئے تھے چھاتی پر رات کتنا مہک رہا تھا گھر اشک سیراب ہیں لہو پی کر اور پیاسا ہے بھائی کا خنجر پیٹھ کانٹوں سے ہو گئی چھلنی حوصلہ تھا اٹھا دیا بستر دل ربا نام ہے کہانی کا خوں چشیدہ ہے ایک اک منظر منہ اندھیرے ہی جاگنا ہے تجھے میرے زخموں پہ اپنے کان نہ دھر

    مزید پڑھیے

    ایک بار ہی کر لیں روز خودکشی کیسی

    ایک بار ہی کر لیں روز خودکشی کیسی بے ضمیر لوگوں کے ساتھ زندگی کیسی جب زکوٰۃ بٹتی ہے اک قطار ہوتے ہیں شہر کے عمائد میں اتنی مفلسی کیسی لگتا ہے قیامت اب کچھ ہی فاصلے پر ہے سورجوں کی آنکھوں میں اتنی تیرگی کیسی سات پردوں کے پیچھے بھی گرج نہیں سکتے میں سمجھ نہیں پاتا ہے یہ بے حسی ...

    مزید پڑھیے

    خواب میں بھی ادھر جو دل جائے

    خواب میں بھی ادھر جو دل جائے پھول کی طرح زخم کھل جائے وصل ہو تو ہمارا ایسا ہو دستخط دستخط سے مل جائے میرا آنسو زمیں پہ گرتے ہی سوچ لیجے زمیں نہ ہل جائے اتنی چھوٹی ہو یہ گلی کہ میرا تیرے بازو سے بازو چھل جائے

    مزید پڑھیے

    آ گئے کیا چراغ آنکھوں کے

    آ گئے کیا چراغ آنکھوں کے عرش پر ہیں دماغ آنکھوں کے بوڑھا ہوتا ہوں اشک باری میں کب دھلیں گے یہ داغ آنکھوں کے زندگی بھر یوں ہی مہکتے رہیں میری بانہوں میں باغ آنکھوں کے آج کے بعد اگر تجھے دیکھوں ٹوٹ جائیں ایاغ آنکھوں کے آئنوں ہی میں وہ چھپا ہے کہیں معتبر ہیں سراغ آنکھوں کے

    مزید پڑھیے

    اس درجہ جل رہا ہوں بدن کے الاؤ میں

    اس درجہ جل رہا ہوں بدن کے الاؤ میں سورج اتر گئے ہیں مرے گھاؤ گھاؤ میں جمنے لگا رگوں میں لہو برف کی طرح پھر کوئی تیرتا ہے نظر کے بہاؤ میں اک آن میں ضمیر کا پانی اتر گیا کچھ فرق آ گیا جو کہیں رکھ رکھاؤ میں ایسا نہ ہو بلند ستارے بھی ڈوب جائیں لمبا سفر نہ کیجئے کاغذ کی ناؤ میں

    مزید پڑھیے

    ماضی سے اپنی آنکھ کو تر کر لیا کریں

    ماضی سے اپنی آنکھ کو تر کر لیا کریں تاروں کی روشنی میں سفر کر لیا کریں کانٹوں سی لفظیات ہے اپنی زباں کا سچ یہ سچ قبول ہو تو نظر کر لیا کریں آساں ترین موت کی سب کوششیں فضول اتنی ہی ٹھوکروں میں گزر کر لیا کریں دریا سے کوئی گفتگو کرنے سے پیشتر پتھر پہ تیز اپنا ہنر کر لیا کریں جب ...

    مزید پڑھیے

    عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا

    عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا کسی پلک میں نمی تک نہیں رہی باقی چلا گیا کہاں چہروں سے نور دریا کا ہر ایک موج کی ہے نبض میرے ہاتھوں میں میرے شعور میں ضم ہے شعور دریا کا ہر ایک حرف سے اک تشنگی سی رستی ہے احاطہ کرتی ہیں کیا یہ سطور دریا کا بجا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2