Rashid Imkan

رشید امکان

رشید امکان کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    کس قدر معصوم دکھیارے ہیں یہ

    کس قدر معصوم دکھیارے ہیں یہ روشنی کی رات کے تارے ہیں یہ ہم کو تو گنتی تلک آتی نہیں کتنا کچھ جیتا ہے اور ہارے ہیں یہ ہائے کیسی دوپہر کا سامنا پا برہنہ ہم ہیں بنجارے ہیں یہ مکر ہے سب پانیوں پہ تیرنا دور رہنا جلتے انگارے ہیں یہ کون جانے ان کی بخشش ہے کہاں پتھروں پہ روز سر مارے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سو تو جاؤں چراغ گل کر کے

    سو تو جاؤں چراغ گل کر کے زخم کھلنے لگیں گے بستر کے اپنی شدت کو معتبر کر لوں تیرے ہونٹوں پہ دستخط کرکے وہ تو جنت کی کھڑکیاں نکلیں جن سے میں جھانکتا تھا ڈر ڈر کے سیکڑوں بجلیاں گرا ڈالیں ایک جگنو نے روشنی کرکے دھوپ میں اور بھی نکھرتے ہیں پھول ہیں یہ تو سنگ مرمر کے

    مزید پڑھیے

    بجھ گئے سارے ماہتاب ترے

    بجھ گئے سارے ماہتاب ترے اب کہاں ہیں وہ آفتاب ترے پیدا ہوتے ہی پر نکل آئے دیکھ دن آئیں گے خراب ترے تجھ سے نفرت کی انتہا ہے یہ سونے دیتے نہیں ہیں خواب ترے خود کو لگنے نہ دوں کوئی کانٹا تیرے ہاتھوں سے لوں گلاب ترے تیرے چہرے پہ پوت دی کالک میری ٹھوکر پہ سب عذاب ترے اب تو خوش ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    پھول سوئے ہوئے تھے چھاتی پر

    پھول سوئے ہوئے تھے چھاتی پر رات کتنا مہک رہا تھا گھر اشک سیراب ہیں لہو پی کر اور پیاسا ہے بھائی کا خنجر پیٹھ کانٹوں سے ہو گئی چھلنی حوصلہ تھا اٹھا دیا بستر دل ربا نام ہے کہانی کا خوں چشیدہ ہے ایک اک منظر منہ اندھیرے ہی جاگنا ہے تجھے میرے زخموں پہ اپنے کان نہ دھر

    مزید پڑھیے

    ایک بار ہی کر لیں روز خودکشی کیسی

    ایک بار ہی کر لیں روز خودکشی کیسی بے ضمیر لوگوں کے ساتھ زندگی کیسی جب زکوٰۃ بٹتی ہے اک قطار ہوتے ہیں شہر کے عمائد میں اتنی مفلسی کیسی لگتا ہے قیامت اب کچھ ہی فاصلے پر ہے سورجوں کی آنکھوں میں اتنی تیرگی کیسی سات پردوں کے پیچھے بھی گرج نہیں سکتے میں سمجھ نہیں پاتا ہے یہ بے حسی ...

    مزید پڑھیے

تمام