ماضی سے اپنی آنکھ کو تر کر لیا کریں
ماضی سے اپنی آنکھ کو تر کر لیا کریں
تاروں کی روشنی میں سفر کر لیا کریں
کانٹوں سی لفظیات ہے اپنی زباں کا سچ
یہ سچ قبول ہو تو نظر کر لیا کریں
آساں ترین موت کی سب کوششیں فضول
اتنی ہی ٹھوکروں میں گزر کر لیا کریں
دریا سے کوئی گفتگو کرنے سے پیشتر
پتھر پہ تیز اپنا ہنر کر لیا کریں
جب ایسی کوئی بات اٹھے میں تو کیا مرے
سائے سے دور اپنا شجر کر لیا کریں
تحریر میں کسی کی کجی دیکھنے کے بعد
زیر و زبر پہ اپنی نظر کر لیا کریں