بجھ گئے سارے ماہتاب ترے

بجھ گئے سارے ماہتاب ترے
اب کہاں ہیں وہ آفتاب ترے


پیدا ہوتے ہی پر نکل آئے
دیکھ دن آئیں گے خراب ترے


تجھ سے نفرت کی انتہا ہے یہ
سونے دیتے نہیں ہیں خواب ترے


خود کو لگنے نہ دوں کوئی کانٹا
تیرے ہاتھوں سے لوں گلاب ترے


تیرے چہرے پہ پوت دی کالک
میری ٹھوکر پہ سب عذاب ترے


اب تو خوش ہے کہ پہلی فرصت میں
تجھ کو لوٹا دئے جواب ترے