رشید افروز کی نظم

    حاصل

    کیا عجب کھیل ہے جو شخص قریب آتا ہے اپنے ہم راہ نئی دوریاں لے آتا ہے

    مزید پڑھیے

    کچھ روز ابھی ہم زندہ ہیں

    کچھ روز ابھی ہم زندہ ہیں کچھ روز اصولوں کی خاطر ہم دنیا سے لڑ سکتے ہیں پھر وقت کے ساتھ ہر شے میں تبدیلی آ جاتی ہے پتھر پر سبزہ اگتا ہے بالوں میں چاندی پکتی ہے غصہ کم ہو جاتا ہے بستی کے مہذب لوگوں میں ہم سنجیدہ کہلاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    مجھے خود یقیں ہے

    مجھے خود یقیں ہے ابھی اور کچھ روز تم میری انگلی پکڑ کر چلو گے مگر جلد ہی جب سہاروں کی حد سے گزر جاؤ گے اپنی بیساکھیاں پھینک دو گے مری لاش پر سے گزر جاؤ گے

    مزید پڑھیے

    آواز کا وہم

    کون تھا کس نے پکارا تھا مجھے کوئی نہیں کوئی نہیں بس وہم تھا وہم کی آواز نے چونکا دیا اس زمیں پر کیا کوئی ایسا نہیں جو مجھے آواز دے اک خلا ہے اور خلا کے اس طرف تیرگی ہی تیرگی تیرگی کی آنکھ میں تشنگی ہی تشنگی ہاں مگر اس تیرگی اس تشنگی اس خلا کے اس طرف کوئی تو ہے

    مزید پڑھیے

    خود شناسی

    اس بستی میں مجھ سے بہتر لوگ بہت ہیں مجھ سے کمتر لوگ بہت لوگوں کی اس بھیڑ میں لیکن میرے جیسا کوئی نہیں

    مزید پڑھیے

    نفی

    نہیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں تیرے سوا کچھ بھی نہیں یہ زمیں یہ آسماں یہ حضر یہ سائباں سارا جہاں کچھ بھی نہیں تیرے سوا اور میں تیرے سوا

    مزید پڑھیے