تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو
تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو دیوار و در اداس ہیں ہر شے ہے زرد رو خاموشیوں میں ڈوب گئی زندگی کی شام آواز دے کے جانے کہاں چھپ گیا ہے تو آنکھوں میں جاگتی ہی رہی نیند رات بھر چلتی رہی خیال کے صحرا میں گرم لو ساحل پہ ڈوبنے لگی آب رواں کی لو برپا تھا زرد ریت کا طوفان چار سو وادی ...