رشید افروز کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو

    تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو دیوار و در اداس ہیں ہر شے ہے زرد رو خاموشیوں میں ڈوب گئی زندگی کی شام آواز دے کے جانے کہاں چھپ گیا ہے تو آنکھوں میں جاگتی ہی رہی نیند رات بھر چلتی رہی خیال کے صحرا میں گرم لو ساحل پہ ڈوبنے لگی آب رواں کی لو برپا تھا زرد ریت کا طوفان چار سو وادی ...

    مزید پڑھیے

    ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ

    ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ اب تو سناٹا ہے شاید ہو چکی ہو چیر پھاڑ جسم سے پہرہ ہٹا یہ کھردری کھالیں ادھیڑ خون کی جھاڑو سے پھر ان ہڈیوں کی گرد جھاڑ ذہن میں جب کوئی شیریں کا تصور آ گیا سر پہ تیشوں کو اٹھائے دوڑتے آئے پہاڑ وحشتیں تاریکیاں رسوائیاں بربادیاں ہائے ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی

    راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی تم نے آنکھوں میں جگہ دی یہ تمہاری بھول تھی عمر بھر لڑتا رہا جو وقت کی چٹان سے کل مرے کاندھے پہ اس کی لاش جیسے پھول تھی خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے قصہ ختم کر میں تجھے ہمدرد سمجھا تھا یہ میری بھول تھی دوستی کا حق نبھایا تیری خاطر لڑ ...

    مزید پڑھیے

    شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں

    شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں صحرا کی جلتی ریت میں ٹھنڈی ہوا نہیں پیلے بدن میں نیلی رگیں سرد ہو گئیں خوں برف ہو گیا ہے کوئی راستہ نہیں اس کے مکاں کی چھت پہ سلگنے لگی ہے دھوپ کمرے سے اپنے رات کا ڈیرا اٹھا نہیں بادل لپٹ کے سو گئے سورج کے جسم سے دریا کے گھر میں آج بھی چولہا جلا ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    حاصل

    کیا عجب کھیل ہے جو شخص قریب آتا ہے اپنے ہم راہ نئی دوریاں لے آتا ہے

    مزید پڑھیے

    کچھ روز ابھی ہم زندہ ہیں

    کچھ روز ابھی ہم زندہ ہیں کچھ روز اصولوں کی خاطر ہم دنیا سے لڑ سکتے ہیں پھر وقت کے ساتھ ہر شے میں تبدیلی آ جاتی ہے پتھر پر سبزہ اگتا ہے بالوں میں چاندی پکتی ہے غصہ کم ہو جاتا ہے بستی کے مہذب لوگوں میں ہم سنجیدہ کہلاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    مجھے خود یقیں ہے

    مجھے خود یقیں ہے ابھی اور کچھ روز تم میری انگلی پکڑ کر چلو گے مگر جلد ہی جب سہاروں کی حد سے گزر جاؤ گے اپنی بیساکھیاں پھینک دو گے مری لاش پر سے گزر جاؤ گے

    مزید پڑھیے

    آواز کا وہم

    کون تھا کس نے پکارا تھا مجھے کوئی نہیں کوئی نہیں بس وہم تھا وہم کی آواز نے چونکا دیا اس زمیں پر کیا کوئی ایسا نہیں جو مجھے آواز دے اک خلا ہے اور خلا کے اس طرف تیرگی ہی تیرگی تیرگی کی آنکھ میں تشنگی ہی تشنگی ہاں مگر اس تیرگی اس تشنگی اس خلا کے اس طرف کوئی تو ہے

    مزید پڑھیے

    خود شناسی

    اس بستی میں مجھ سے بہتر لوگ بہت ہیں مجھ سے کمتر لوگ بہت لوگوں کی اس بھیڑ میں لیکن میرے جیسا کوئی نہیں

    مزید پڑھیے

تمام