رشید افروز کی غزل

    تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو

    تنہائیوں کے درد سے رستا ہوا لہو دیوار و در اداس ہیں ہر شے ہے زرد رو خاموشیوں میں ڈوب گئی زندگی کی شام آواز دے کے جانے کہاں چھپ گیا ہے تو آنکھوں میں جاگتی ہی رہی نیند رات بھر چلتی رہی خیال کے صحرا میں گرم لو ساحل پہ ڈوبنے لگی آب رواں کی لو برپا تھا زرد ریت کا طوفان چار سو وادی ...

    مزید پڑھیے

    ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ

    ہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کی گونجی تھی دہاڑ اب تو سناٹا ہے شاید ہو چکی ہو چیر پھاڑ جسم سے پہرہ ہٹا یہ کھردری کھالیں ادھیڑ خون کی جھاڑو سے پھر ان ہڈیوں کی گرد جھاڑ ذہن میں جب کوئی شیریں کا تصور آ گیا سر پہ تیشوں کو اٹھائے دوڑتے آئے پہاڑ وحشتیں تاریکیاں رسوائیاں بربادیاں ہائے ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی

    راہ میں قدموں سے جو لپٹی سفر کی دھول تھی تم نے آنکھوں میں جگہ دی یہ تمہاری بھول تھی عمر بھر لڑتا رہا جو وقت کی چٹان سے کل مرے کاندھے پہ اس کی لاش جیسے پھول تھی خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے قصہ ختم کر میں تجھے ہمدرد سمجھا تھا یہ میری بھول تھی دوستی کا حق نبھایا تیری خاطر لڑ ...

    مزید پڑھیے

    شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں

    شعلہ شمیم زلف سے آگے بڑھا نہیں صحرا کی جلتی ریت میں ٹھنڈی ہوا نہیں پیلے بدن میں نیلی رگیں سرد ہو گئیں خوں برف ہو گیا ہے کوئی راستہ نہیں اس کے مکاں کی چھت پہ سلگنے لگی ہے دھوپ کمرے سے اپنے رات کا ڈیرا اٹھا نہیں بادل لپٹ کے سو گئے سورج کے جسم سے دریا کے گھر میں آج بھی چولہا جلا ...

    مزید پڑھیے