راحت حسن کی غزل

    بلا کا ذکر کیا یہ موج بھی غنیمت ہے

    بلا کا ذکر کیا یہ موج بھی غنیمت ہے تماشا دیکھ رہے ہیں یہی غنیمت ہے کسی کے مال سے کوئی غرض نہیں ہم کو ہماری جیب میں جو ہے وہی غنیمت ہے کھلی ہوئی ہیں جو راہیں تو یہ سمجھ لو تم کہ اپنے شہر کا موسم ابھی غنیمت ہے ہمیں ہے فخر کہ نسبت کے پاسدار ہیں ہم ہمارے واسطے ہر شے بڑی غنیمت ہے خود ...

    مزید پڑھیے

    احباب ہیں کیوں دنگ مجھے ہی نہیں معلوم

    احباب ہیں کیوں دنگ مجھے ہی نہیں معلوم کس سے ہے مری جنگ مجھے ہی نہیں معلوم تابانیٔ جذبات میں آئی ہے کمی کیا پھیکا ہے کیوں ہر رنگ مجھے ہی نہیں معلوم مدت سے میں جو داغ مٹانے میں لگا ہوں کہتے ہیں اسے زنگ مجھے ہی نہیں معلوم دن رات یوں کرتا ہے مجھے کون مقید کیوں کر ہے زمیں تنگ مجھے ہی ...

    مزید پڑھیے

    رفاقت میں رفیقوں کی ریا کاری بھی شامل ہے

    رفاقت میں رفیقوں کی ریا کاری بھی شامل ہے مری آسانیوں میں کار دشواری بھی شامل ہے بجز تصویر گل کے باغ میں دیکھوں تو کیا دیکھوں عقیدت کے اثر میں خود سے بے زاری بھی شامل ہے نقاہت کا ہے غلبہ سو جھکا دیتے ہیں سر اپنا اطاعت کے عمل میں اپنی لاچاری بھی شامل ہے مسلسل بند آنکھوں سے مناظر ...

    مزید پڑھیے

    آگہی آئنے تلک ہے کیا

    آگہی آئنے تلک ہے کیا خود کے ہونے میں کوئی شک ہے کیا قریہ قریہ بھٹک رہے ہیں لوگ سب کو اندھا کیے چمک ہے کیا منہ پہ آتی ہیں ان کہی باتیں دل میں باقی ابھی کسک ہے کیا اندر اندر سے ہل رہا ہوں میں ہوتی محسوس کچھ دھمک ہے کیا تم جو آنکھوں کو بند رکھتے ہو دیکھ لی اس کی اک جھلک ہے کیا کیوں ...

    مزید پڑھیے

    جنون کرتا ہے دن رات پائمال مجھے

    جنون کرتا ہے دن رات پائمال مجھے ہوائے شہر مرے دشت سے نکال مجھے بنا کے بھول گیا نقش پچھلے چہروں کا پھر ایک شکل کا آنے لگا خیال مجھے بدن کے سائے کو دل کے قریب دیکھتا ہوں یہ آج کس سے بچھڑنے کا ہے ملال مجھے چلا رہا ہوں کرائے پہ آس کی کشتی کبھی تو ڈالنے دے پانیوں میں جال مجھے سر ...

    مزید پڑھیے

    راہ سفر میں گرد کبھی ہے کبھی نہیں

    راہ سفر میں گرد کبھی ہے کبھی نہیں دل مبتلائے درد کبھی ہے کبھی نہیں حیراں کیے ہیں خلق کو جادو کی بستیاں نام و نشان فرد کبھی ہے کبھی نہیں خوں کی سفیدیوں کا نظارہ ہے مستقل زور ہوائے سرد کبھی ہے کبھی نہیں یہ کیسے حادثات کی صورت ہے شہر میں چہروں کا رنگ زرد کبھی ہے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    معتقد اس بار شاید سرخ رو ہونے کو ہے

    معتقد اس بار شاید سرخ رو ہونے کو ہے دوست تھا جو اب تلک وہ بھی عدو ہونے کو ہے در کھلے جاتے ہیں گم گشتہ مکینوں کی طرف ہر کسی کو اپنی اپنی جستجو ہونے کو ہے پربتوں کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے دھواں کیا کوئی آسیب میرے رو بہ رو ہونے کو ہے سرخیوں میں ڈھلتی جاتی ہے سیاہی دم بدم رفتہ رفتہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تارا کہیں مہتاب سے ملتا جلتا

    کوئی تارا کہیں مہتاب سے ملتا جلتا یہی منظر ہے مرے خواب سے ملتا جلتا گھر مزین ہے تو پھر صحن بھی خالی کیوں ہو کیوں نہیں اپنے میں احباب سے ملتا جلتا رو میں بہتا ہوں تو ہوتی ہے رگوں میں ہلچل جانے کیا مجھ میں ہے سیلاب سے ملتا جلتا قطرۂ سرخ میں جب خون کی تاثیر نہیں کیا ہے پھر جسم میں ...

    مزید پڑھیے

    خود سے نباہ شاق ہوا ہے کبھی کبھی

    خود سے نباہ شاق ہوا ہے کبھی کبھی سارا وجود چاق ہوا ہے کبھی کبھی ڈھونڈا اسے تو خود سے ملاقات ہو گئی ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کبھی کبھی ہر زاویہ سے عکس کو دیکھا ہے آنکھ نے ہر بات کا فراق ہوا ہے کبھی کبھی حائل ہے جو ازل سے مرے حال و قال میں وہ بھی عیاں نفاق ہوا ہے کبھی کبھی ہنستے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    رتبۂ تخت سے محروم ہے منصب میرا

    رتبۂ تخت سے محروم ہے منصب میرا صاحب فہم سمجھتے نہیں مطلب میرا ہے مرے شعر سے احوال زمانہ ظاہر پڑھ لو تم بھی کہ یہ شیشہ ہے محدب میرا میری بستی کو اجالے میں دکھا کر مجھ کو قتل کرتا ہے کوئی خواب میں ہر شب میرا ترجماں ہیں مرے ماحول کی غزلیں میری یہ الگ بات کہ لہجہ ہے مہذب میرا شہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4