راحت حسن کی غزل

    رنج اک تلخ حقیقت کا فقط ہے مجھ کو

    رنج اک تلخ حقیقت کا فقط ہے مجھ کو میرے احباب نے آنکا ہی غلط ہے مجھ کو بعد مدت کے گلابوں کی مہک آئی ہے اس نے پردیس سے بھیجا کوئی خط ہے مجھ کو موج طوفان سے بیگانہ ہوا ہوں پھر میں پھر میسر ہوئی آسانیٔ شط ہے مجھ کو حرف کی شکل میں ڈھلتی ہیں لکیریں خود سے آ کے دیتا کوئی پیغام نقط ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    جو لوگ دیدہ و دل کو تباہ دیکھتے ہیں

    جو لوگ دیدہ و دل کو تباہ دیکھتے ہیں مکین خواب کے آنے کی راہ دیکھتے ہیں ہمیں اب آنکھ کے منظر کا اعتبار نہیں سو ہم اب عکس نہیں بس نگاہ دیکھتے ہیں یہ کیسی آگ لگاتا ہے آفتاب کہ ہم زمین و عرش کو ہوتے سیاہ دیکھتے ہیں تم اپنی ذات سے کوئی مطالبہ نہ کرو ہم اپنے آپ سے کر کے نباہ دیکھتے ...

    مزید پڑھیے

    تجھے ہے شوق زباں پر جو قند رکھنے کا

    تجھے ہے شوق زباں پر جو قند رکھنے کا دے اختیار مجھے بھی پسند رکھنے کا پکارتی ہیں مرے دل کی پستیاں مجھ کو یہی تو وقت ہے رتبہ بلند رکھنے کا اسی جہاد میں گزری ہے زندگی اپنی کیا ہے روز ارادہ سمند رکھنے کا بلند میخ سے خوابوں کی رسیاں باندھو دیا ہے رات نے موقع کمند رکھنے کا ہمیں سے ...

    مزید پڑھیے

    شیش محل میں دو پل کو مہمان ہوئے تھے ہم (ردیف .. ن)

    شیش محل میں دو پل کو مہمان ہوئے تھے ہم آئینے میں اب تک اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں نئی عمارت کے سائے میں کیسا ہے یہ ڈھیر لوگ پرانے اس میں اپنی دنیا ڈھونڈتے ہیں پیاس کہاں لگتی ہے اس طوفانی موسم میں پھر بھی جنگل میں سب آہو دریا ڈھونڈتے ہیں بستی خود ہو جاتی ہے ویرانے میں تبدیل جوش جنوں ...

    مزید پڑھیے

    جب سے جانا ہے غم زیست سے حاصل کیا ہے

    جب سے جانا ہے غم زیست سے حاصل کیا ہے میں یہی سوچ رہا ہوں متبادل کیا ہے خواب آنکھوں میں بسائے تو ہوئی یہ خواہش کوئی ہم سے بھی یہ پوچھے کہ غم دل کیا ہے لوگ ہر قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں پوچھئے کس سے کہ اب کار سلاسل کیا ہے کس کو فرصت ہے کرے ہم کو جو زندہ ثابت بس یہی ایک وکیل اپنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    آگ کیا سرد ہوئی برف کو پانی کر کے

    آگ کیا سرد ہوئی برف کو پانی کر کے ہم بھی دریا ہوئے محسوس روانی کر کے پوچھئے کس سے کہ ویران ہوئے گھر کیسے ہر کوئی خوش ہے یہاں نقل مکانی کر کے ان اشاروں کی کنایوں کی حقیقت معلوم ہم نے الفاظ کو دیکھا تھا معانی کر کے اک نئے دن کی شروعات ہوئی جاتی ہے قافلو آگے بڑھو ختم کہانی کر ...

    مزید پڑھیے

    ربط میں پہلوئے نیرنگ کہاں سے آیا

    ربط میں پہلوئے نیرنگ کہاں سے آیا صاحب عرض کو یہ ڈھنگ کہاں سے آیا خوش نما عکس ہوئے خار کی صورت کیسے آئنے سب تھے تو پھر سنگ کہاں سے آیا گرد کی زد میں ہے خوشبو سے مہکتا آنگن خواب میں دہر کا آہنگ کہاں سے آیا سبز ہے وادئ بے آب میں گلشن میرا شب کی تصویر میں یہ رنگ کہاں سے آیا دوست ...

    مزید پڑھیے

    زمین دن رات جل رہی ہے

    زمین دن رات جل رہی ہے تبھی تو شعلے اگل رہی ہے کلام کرتے ہیں لوگ خود سے بھڑاس دل کی نکل رہی ہے ابھی سے کیا فیصلہ کروں میں ابھی تو دنیا بدل رہی ہے قدم بڑھانے کا ہے نتیجہ کہ برف اب کچھ پگھل رہی ہے وہاں تو موسم ہے بارشوں کا ندی یہاں کیوں ابل رہی ہے تم اپنا شوشہ اٹھائے رکھو مری ...

    مزید پڑھیے

    دل جو ہنستا ہے تو رونے کا گماں ہوتا ہے

    دل جو ہنستا ہے تو رونے کا گماں ہوتا ہے خود کو پا کر اسے کھونے کا گماں ہوتا ہے دن کو جب گھر سے نکلتا ہوں تو اکثر مجھ کو سائے کے بوجھ کو ڈھونے کا گماں ہوتا ہے جب بھی آتی ہے مرے صحن میں خوشبوئے گل تیرے گھر کے کسی کونے کا گماں ہوتا ہے اوڑھ لیتا ہوں شراروں کی ردائیں جب میں ریگ صحرا پہ ...

    مزید پڑھیے

    گلے پہ اک خنجر آب دار کس کا ہے

    گلے پہ اک خنجر آب دار کس کا ہے یہ روز روز مری جاں پہ وار کس کا ہے ہے کون سازش گرد و غبار کے پیچھے پس سموم جنوں ریگزار کس کا ہے دھمک زدہ ہیں خلاؤں میں بستیاں کس کی شکستہ سر پہ مکاں انتشار کس کا ہے چمکتے رنگ کھلے نقش آئینہ چہرے تو آج نقش نظر پر یہ بار کس کا ہے سراب و دشت زمان و مکان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4