راحت حسن کی غزل

    موج و گرداب پہ رکھتا ہے سفینہ میرا

    موج و گرداب پہ رکھتا ہے سفینہ میرا اس کو منظور نہ مرنا ہے نہ جینا میرا مہر افکار کی ہوتی ہے نوازش جب بھی ارض قرطاس پہ گرتا ہے پسینہ میرا مجھ کو آتا ہے عذابوں کا ازالہ کرنا موم ہے تو کبھی فولاد ہے سینہ میرا خادم کوچۂ جاں یہ ہے صداقت میری چند انفاس مقرر ہے مہینہ میرا فاصلے کی ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بہتر مری تصویر نہیں ہو سکتی

    اس سے بہتر مری تصویر نہیں ہو سکتی ذات بے عیب سے تقصیر نہیں ہو سکتی کچھ تو ہے خاص اسیری میں لطافت ورنہ سب کو درکار یوں زنجیر نہیں ہو سکتی مجھ کو دھندلا سا کوئی خواب نظر آیا ہے اب سحر ہونے میں تاخیر نہیں ہو سکتی اپنی بینائی سے روشن رکھو آنکھیں اپنی ہر کسی غار میں تنویر نہیں ہو ...

    مزید پڑھیے

    کام آئے گی تری کھوج میں ظلمت ایسی

    کام آئے گی تری کھوج میں ظلمت ایسی کس کو معلوم تھا بن جائے گی صورت ایسی بے سبب پڑ گئے ہیں جان کے لالے اب کے بے ضرورت ہی نکل آئی ضرورت ایسی جانے ہو ریت کے صحراؤں کا کیسا عالم جب ہے اس گلشن سرسبز میں وحشت ایسی سانس لیتا تھا تو دیوار گری جاتی تھی رات کچھ خواب میں دیکھی تھی عمارت ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی نہیں شہر میں جب ذات کے باہر

    کوئی بھی نہیں شہر میں جب ذات کے باہر کیوں بھیڑ یہ رہتی ہے مکانات کے باہر حیرانی و مدہوشی و تسکین و مسرت کچھ بھی تو نہیں قصر طلسمات کے باہر ہر وقت کی یہ خواب کی عادت نہیں اچھی دیدار کو رعنائی دے ظلمات کے باہر آزاد ہے وہ نفس کی تحویل میں راحتؔ اور ہم ہیں گرفتار حوالات کے باہر

    مزید پڑھیے

    جب اس کو سوچ کے دیکھا تو یہ کمال ہوا

    جب اس کو سوچ کے دیکھا تو یہ کمال ہوا مری لغت کا ہر اک لفظ بے مثال ہوا وہ شہر خواب سے گزرا تو دفعتاً مجھ کو حقیقتوں کے بدلنے کا احتمال ہوا نمود ذات کو پہلے ہی روشنی کم تھی بڑھے جو سائے تو کچھ اور بھی ملال ہوا تھما نہ گرنے سنبھلنے کا سلسلہ یوں ہی میں اپنی خاک سے اٹھا تو لا زوال ...

    مزید پڑھیے

    سرائے شر میں رہنا پڑ رہا ہے

    سرائے شر میں رہنا پڑ رہا ہے قضا کے ڈر میں رہنا پڑ رہا ہے ہے میرے قتل کے درپئے خموشی صدا کے در میں رہنا پڑ رہا ہے میں خود کو دوسروں میں دیکھتا ہوں سو چشم تر میں رہنا پڑ رہا ہے خیال و خواب ہیں جس کے معاون اسے بستر میں رہنا پڑ رہا ہے میں ہوں جس کا دل و جاں سے مخالف اسی لشکر میں رہنا ...

    مزید پڑھیے

    میں دشت میں گر خود کو مہیا نہیں کرتا

    میں دشت میں گر خود کو مہیا نہیں کرتا گردش سے رہا مجھ کو بگولہ نہیں کرتا پہچان کو اک دل ہی مددگار بہت ہے سو پیش کوئی اور حوالہ نہیں کرتا دیکھا ہی نہیں آنکھ نے جس شہر کو پہلے وہ بھی مری حیرت میں اضافہ نہیں کرتا ہر زخم کی لذت کا پرستار ہوں لیکن سیراب مجھے یہ بھی نوالہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    لباس چاک میں ایوان کے آگے نہیں جاتی

    لباس چاک میں ایوان کے آگے نہیں جاتی فراست یوں ہی ہر سلطان کے آگے نہیں جاتی میں طے کرتا ہوں ربط و ضبط کی سب منزلیں پھر بھی رفاقت جان اور پہچان کے آگے نہیں جاتی رہائش تو سبھی کی ہے اسی بازار میں لیکن نظر ہی اب مری سامان کے آگے نہیں جاتی جنوں میں ریگزاروں کا ارادہ کر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ذرہ جو کوئی مہر کے مصداق ہو گیا

    ذرہ جو کوئی مہر کے مصداق ہو گیا سب شہر اس کی دھوپ کا مشتاق ہو گیا قصر خیال خواب مکاں آستان دل رکھی جہاں بھی شمع وہی طاق ہو گیا ان خواہشوں کے ناگ نے کیا ڈس لیا مجھے مہلک تھا جو وہ زہر بھی تریاق ہو گیا وابستہ ہو گئے ہیں اب اس کی ادا سے ہم ہم پر بھی اس کے حکم کا اطلاق ہو گیا راحتؔ پس ...

    مزید پڑھیے

    دشت نے طالب گلزار کیا ہے مجھ کو

    دشت نے طالب گلزار کیا ہے مجھ کو میری وحشت نے گنہ گار کیا ہے مجھ کو گوشہ‌‌ٔ ذات میں آباد ہے دنیا میری خود کی ہستی نے گرفتار کیا ہے مجھ کو نقل و حرکت نے بنایا ہے تماشا میرا بد حواسی نے سزاوار کیا ہے مجھ کو اب مرے کام جو آئے تو ہنر بھی کیسے دل نے شہرت کا پرستار کیا ہے مجھ کو جسم کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4