رتبۂ تخت سے محروم ہے منصب میرا

رتبۂ تخت سے محروم ہے منصب میرا
صاحب فہم سمجھتے نہیں مطلب میرا


ہے مرے شعر سے احوال زمانہ ظاہر
پڑھ لو تم بھی کہ یہ شیشہ ہے محدب میرا


میری بستی کو اجالے میں دکھا کر مجھ کو
قتل کرتا ہے کوئی خواب میں ہر شب میرا


ترجماں ہیں مرے ماحول کی غزلیں میری
یہ الگ بات کہ لہجہ ہے مہذب میرا


شہر قاضی ترے فتووں سے غرض کیا مجھ کو
رب مرا دل مرا مرضی مری مذہب میرا


خوشبوئے شعر سے محظوظ ہوا کر راحتؔ
غم کے بیمار یہ نسخہ ہے مجرب میرا