کوئی تارا کہیں مہتاب سے ملتا جلتا
کوئی تارا کہیں مہتاب سے ملتا جلتا
یہی منظر ہے مرے خواب سے ملتا جلتا
گھر مزین ہے تو پھر صحن بھی خالی کیوں ہو
کیوں نہیں اپنے میں احباب سے ملتا جلتا
رو میں بہتا ہوں تو ہوتی ہے رگوں میں ہلچل
جانے کیا مجھ میں ہے سیلاب سے ملتا جلتا
قطرۂ سرخ میں جب خون کی تاثیر نہیں
کیا ہے پھر جسم میں تیزاب سے ملتا جلتا
آسماں مجھ سے چھپاتا ہے کوئی سچائی
یا کوئی وہم ہے اس خواب سے ملتا جلتا
کس حقیقت کو چھپاتی ہیں نگاہیں راحتؔ
ریت ہے یا کہ سراب آب سے ملتا جلتا