راہ سفر میں گرد کبھی ہے کبھی نہیں
راہ سفر میں گرد کبھی ہے کبھی نہیں
دل مبتلائے درد کبھی ہے کبھی نہیں
حیراں کیے ہیں خلق کو جادو کی بستیاں
نام و نشان فرد کبھی ہے کبھی نہیں
خوں کی سفیدیوں کا نظارہ ہے مستقل
زور ہوائے سرد کبھی ہے کبھی نہیں
یہ کیسے حادثات کی صورت ہے شہر میں
چہروں کا رنگ زرد کبھی ہے کبھی نہیں
نیلاہٹوں کو جس نے غضب ناک کر دیا
وہ سنگ لاجورد کبھی ہے کبھی نہیں
راحتؔ وہ اپنی طرز بدلتا ہے بارہا
لگتا مجھے بھی مرد کبھی ہے کبھی نہیں