آگہی آئنے تلک ہے کیا
آگہی آئنے تلک ہے کیا
خود کے ہونے میں کوئی شک ہے کیا
قریہ قریہ بھٹک رہے ہیں لوگ
سب کو اندھا کیے چمک ہے کیا
منہ پہ آتی ہیں ان کہی باتیں
دل میں باقی ابھی کسک ہے کیا
اندر اندر سے ہل رہا ہوں میں
ہوتی محسوس کچھ دھمک ہے کیا
تم جو آنکھوں کو بند رکھتے ہو
دیکھ لی اس کی اک جھلک ہے کیا
کیوں نگاہوں میں ہیں مری سب رنگ
میرے پیش نظر دھنک ہے کیا
ہے اڑانوں کا سلسلہ ہر سو
اب زمیں کی طرح فلک ہے کیا
کوئی منظر بھی اب نہیں بھاتا
مستقل آنکھ میں کھٹک ہے کیا
ان کو آتی ہے کیوں حیا راحتؔ
پیرہن صرف جسم تک ہے کیا