معتقد اس بار شاید سرخ رو ہونے کو ہے
معتقد اس بار شاید سرخ رو ہونے کو ہے
دوست تھا جو اب تلک وہ بھی عدو ہونے کو ہے
در کھلے جاتے ہیں گم گشتہ مکینوں کی طرف
ہر کسی کو اپنی اپنی جستجو ہونے کو ہے
پربتوں کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے دھواں
کیا کوئی آسیب میرے رو بہ رو ہونے کو ہے
سرخیوں میں ڈھلتی جاتی ہے سیاہی دم بدم
رفتہ رفتہ سارا ہی پانی لہو ہونے کو ہے
وہم کی تائید کرتی ہے ہواؤں کی نمی
پیاس کے ماروں پہ ظاہر آب جو ہونے کو ہے
سعئ لا حاصل سے بھی حاصل ہوا ہے وہ مجھے
جس کی سب زندہ دلوں کو آرزو ہونے کو ہے
اک زمانے بعد راحتؔ ہوش میں آیا ہوں میں
اک زمانے بعد خود سے گفتگو ہونے کو ہے