Rafi Badayuni

رفیع بدایونی

رفیع بدایونی کی غزل

    جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا

    جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا جہاں میں کوئی پرستار اہل زر نہ رہا سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا بدلتی قدروں میں خون جگر سے نامۂ شوق یہ خاص طرز نگارش بھی معتبر نہ رہا نگاہ ناز ہے مایوس کس طرف جائے وہ اہل دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ ...

    مزید پڑھیے

    خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے

    خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے وہ زندگی جسے خون جگر دیا میں نے وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بد ظن ہے خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیعؔ چراغ زیست بہر حال آج روشن ہے

    مزید پڑھیے

    جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے

    جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے بات بن جائے مگر بات بنائیں کیسے اپنی روداد غم عشق سنائیں کیسے ان سے وابستہ ہیں حالات بتائیں کیسے لوگ چہرے سے سمجھ لیتے ہیں دل کی حالت اب ترا راز چھپائیں تو چھپائیں کیسے حسن تو آج بھی دامن کش دل ہے لیکن اپنے حالات کو ہم بھول بھی جائیں کیسے غیر ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے

    دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے زباں پہ دعویٔ الفت ہے کیا کیا جائے ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جائے نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جائے ہمارے سینے میں پتھر نہیں ہے اے لوگو ہمیں بھی پاس محبت ہے کیا کیا ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا

    نگاہ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا دل تباہ کو خانہ خراب کس نے کیا کتاب غم کی کئی لوگ لکھ رہے تھے مگر ہمارے نام اسے انتساب کس نے کیا خموش درد کو اظہار کی زباں دے کر خود اپنے آپ کو یوں بے نقاب کس نے کیا امید تھی تو محافظ شکستہ کشتی کی یہ کیا بتائیں اسے زیر آب کس نے کیا اجارہ داریٔ قلب ...

    مزید پڑھیے

    اک حسیں پیکر تسلیم و رضا ہو جیسے

    اک حسیں پیکر تسلیم و رضا ہو جیسے ایک تم دشمن ارباب وفا ہو جیسے یوں مجھے ان کی عنایت کا خیال آتا ہے ایک افسانہ کبھی میں نے پڑھا ہو جیسے زندگی اتنی گراں بار نظر آتی ہے ایک مجرم کے لئے کوئی سزا ہو جیسے دل کے گوشے میں تمناؤں کی فریادیں ہیں یا کہیں رات گئے شور اٹھا ہو جیسے ایسے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے

    کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے کبھی وہ لطف مجسم دکھائی دیتا ہے زمانہ ہوتا ہے مجبور رخ بدلنے پر کسی کا عزم جو محکم دکھائی دیتا ہے عروس دہر کی رنگینیٔ جمال میں اب ترے شباب کا عالم دکھائی دیتا ہے تلاش دوست مسافت ہے ایک لا محدود کہ جس قدر بھی چلیں کم دکھائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    غیر ممکن تو نہیں صاحب عرفاں ہونا

    غیر ممکن تو نہیں صاحب عرفاں ہونا شرط ہے سنگ ملامت پہ بھی خنداں ہونا چھوڑ کر لالہ و گل خار بہ داماں ہونا آج کے دور میں دشوار ہے انساں ہونا دور حاضر پہ یہ اک طنز نہیں پھر کیا ہے کوئی انسان نظر آئے تو حیراں ہونا عین فطرت ہے جنہیں غم ہی ملے ہوں ان کو کوئی امید نظر آئے تو حیراں ...

    مزید پڑھیے

    کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو

    کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو کسی سے ملنے کی پہلے کچھ آرزو تو کرو حریف کس لئے خائف ہیں کیوں وہ بد ظن ہیں انہیں بلاؤ کبھی ان سے گفتگو تو کرو رہیں گے راہ میں سنگ گراں نہ دیواریں عمل کے جذبہ کو تھوڑا سا جنگجو تو کرو حیات دھوپ بھی ہے بادلوں کا سایہ بھی وہ کوئی حال ہو جینے کی ...

    مزید پڑھیے

    حصار حفظ جاں کوئی نہیں ہے

    حصار حفظ جاں کوئی نہیں ہے ہے کشتی بادباں کوئی نہیں ہے جہاں تک میں گیا راہ طلب میں وہاں تک سائباں کوئی نہیں ہے کچھ ایسی ذہنیت کے لوگ بھی ہیں جہاں وہ ہیں وہاں کوئی نہیں ہے محبت میں ہے نفرت کا بھی امکاں خلوص بے کراں کوئی نہیں ہے گماں ہو اپنے ویرانے کا جس پر مکاں ایسا یہاں کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2