جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا
جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا جہاں میں کوئی پرستار اہل زر نہ رہا سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا بدلتی قدروں میں خون جگر سے نامۂ شوق یہ خاص طرز نگارش بھی معتبر نہ رہا نگاہ ناز ہے مایوس کس طرف جائے وہ اہل دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ ...