Rafi Badayuni

رفیع بدایونی

رفیع بدایونی کی غزل

    سلوک دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں

    سلوک دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں خیال یہ ہے بلندی سے گر گیا ہوں میں بدلتے وقت نے ہر چیز کو بدل ڈالا خلوص ویسا کہاں ہے جو سوچتا ہوں میں مجھے لگا ہے کہ تحلیل ہو گیا ہے وجود کبھی جب ان کے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں محبتوں کا حسیں دور آنے والا ہے یہ رخ بھی ان کی عداوت کا دیکھتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں

    جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں اندھیرے دیکھیے کب روشنی سے ملتے ہیں جنون شوق کو صحرا نورد پایا ہے کچھ اس کے رشتے بھی آوارگی سے ملتے ہیں خلوص بھی کوئی بنجر زمین ہے شاید ثبوت اس کے مری زندگی سے ملتے ہیں وہ بات کہہ دی جسے عقل و دل قبول کریں یہ دشمنی ہے تو ہم دشمنی سے ملتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2