دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے
دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے
زباں پہ دعویٔ الفت ہے کیا کیا جائے
ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں
ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جائے
نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ
اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جائے
ہمارے سینے میں پتھر نہیں ہے اے لوگو
ہمیں بھی پاس محبت ہے کیا کیا جائے
دوکان علم و ہنر کیوں سجا نہ لے کوئی
یہ راز عزت و شہرت ہے کیا کیا جائے
یہ اک خلش یہ تجسس یہ حسرتوں کا ہجوم
اسی سے زیست عبارت ہے کیا کیا جائے
بدل کے دیکھے بھی اسلوب تشنگی نہ گئی
دل و نظر کی حکایت ہے کیا کیا جائے
میں خود خلوص سے اپنے بہت پریشاں ہوں
اب اس کی کس کو ضرورت ہے کیا کیا جائے
زمانہ سازی کو دنیا ہنر کہے لیکن
جب اس خیال سے نفرت ہے کیا کیا جائے