جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا

جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا
جہاں میں کوئی پرستار اہل زر نہ رہا


سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں
بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا


بدلتی قدروں میں خون جگر سے نامۂ شوق
یہ خاص طرز نگارش بھی معتبر نہ رہا


نگاہ ناز ہے مایوس کس طرف جائے
وہ اہل دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ رہا


خوشی کے لمحوں سے کیف دوام کیا ملتا
وہ رقص جام بھی دیکھا جو رات بھر نہ رہا


لچک تھی جن میں وہ پودے تو اب بھی باقی ہیں
ہوا کی زد پہ جو آیا وہی شجر نہ رہا


ذرا سی دیر میں منزل کو پا لیا اس نے
وہ جس کے سر پہ کہیں سایۂ شجر نہ رہا


خرد کا دل سے تعلق نہ کوئی رشتہ ہے
وہ ہم خیال بھی کب تھا جو ہم سفر نہ رہا