خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے

خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے
ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے


کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے
یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے


وہ زندگی جسے خون جگر دیا میں نے
وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بد ظن ہے


خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیعؔ
چراغ زیست بہر حال آج روشن ہے